السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گنبد خضری مرکز اہل وفا
چند سالوں سے دشمنانِ اسلام کی طرف سے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰﷺ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیوں کے بعد ہر عاشقِ رسول ﷺ عجیب و غریب کیفیات میں سوچ رہا ہے آخر ان گستاخیوں کا دروازہ کیسے بند ہو گا؟ عظمتِ مصطفےٰ ﷺ میں تو یقیناًدن بدن اضافہ ہو رہا ہے لیکن عزتِ ناموس مصطفےٰ ﷺ کے پہرے داروں یعنی امت ہونے کے
دعویداروں کی کوئی کمزوری غیروں نے دیکھ لی ہے جسکی وجہ سے ان پر امت مسلمہ کی پہلے والی ہیبت برقرار نہیں رہی۔ عداوت اور بات ہے لیکن عداوت میں باؤلا پن، گستاخانہ خرمستیاں یہ اور معاملہ ہے۔ کوئی بھی دشمن اپنے مد مقابل کے بارے میں عداوت کا گراف اس کی مقبولیت اور اس کے وفاداروں کی غیرت و حرارت کو دیکھ کر بناتا ہے جب اسے معلوم ہوکہ میرے مد مقابل کے متوالے اس کی طرف میلی نگاہ دیکھنے پربھی بپھر جائینگے اور میری خوب خبر لیں گے اور مجھے کفن اور قبر دینگے تو وہ میلی نگاہ کے ارادے کی بھی جسارت نہیں کرے گابلا تمثیل ایسے ہی آج کے ملعون گستاخوں کی گستاخیوں کے ارتکاب اور پھر ان کے سد باب کا معاملہ ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دشمنان رسول پر رعب اس لیے طاری تھا جب ہمارے آقا حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی سواری [دراز گوش ]کو عبد اللہ بن ابی سلول نے بدبو والا کہا تھا توصحابی رسول حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا بھی بدلہ لیا بر جستہ کہا خدا کی قسم تجھ سے رسول اکرم ﷺ کی سواری کا پیشاب بھی کہیں زیادہ خوشبو والا ہے جوتوں اور ڈنڈوں اورُ مکّوں سے لڑائی ہو گئی لیکن دشمنوں پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو امت اپنے رسول ﷺ کی سواری کی ادنی سی توہین برداشت نہ کرے وہ اپنے رسولﷺ کی کوئی توہین کیسے برداشت کرے گی۔
ایسے ہی حدیبیہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قریش کے سفیر، دشمن نبی عروہ بن مسعودکو دیکھا تو ارادہ کیااپنے نبی ﷺکی شان کودشمن پر واضح کریں ذات رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ہمارے جذبات کیا ہیں- اتنے میں رسول اللہ ﷺ کو حاجت ہوئی اور اپنا لعاب دہن مبارک ,گل قدس کی پتیوں جیسے مبارک ہونٹوں سے جدا کیا ایسا کرنا ہی تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وہ لعاب دہن اپنے ہاتھوں پہ لے لیا اور ماتھوں پہ لگانا شروع کر دیا جب رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا تو انہوں نے پیکر رسول ﷺ سے جدا ہونے والے پانی کو بھی بدن پہ ملنا اور چومنا شروع کر دیا دشمن کو خود بھی پتہ چلا اور پچھلوں کوبھی جا بتایا , جن کے نزدیک اپنے نبی ﷺکے لے لعاب کی اتنی تعظیم ہے تو رسالت مآب ﷺ کی کتنی تعظیم ہو گی۔ جنہیں اپنے محبوب ﷺ کا لعاب زمین پر گرنا منظور نہیں ان کا لہو نیچے گرے یہ کسیے برداشت کریں گے ۔دشمنوں کے ہوش ٹھکانے آگئے خود عروہ بن مسعود جنہوں نے یہ اندازِ محبت اور مسلکِ تعظیم دیکھا ان کے دل سے عداوت کم ہی نہیں ہوئی بلکہ ختم ہوگئی ۔جس کے نتیجے میں انہوں نے کلمہ پڑھا ،صحابی بنے اور منصب شہادت پایا ۔
اس سے ثابت ہوا کہ دشمنوں سے رسول اکرم ﷺ کی عظمت کا لوہا منوانے کیلئے آپ ﷺ کی نسبت کی حامل ہر چیز کی تعظیم کرنا ہو گی اوراگر ادائے تعظیم ہی کو مورد اعتراض قرار دے دیاجائے تو گستاخوں کی حوصلہ افزائی ہوگی ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس جو عقیدۂِ توحید و رسالت ،نماز،روزہ،حج،زکوۃ ،اسوہ حسنہ پر عمل ،سیرت و سنت کا پیغام تھا وہ سب کچھ آج کے مسلمان کے پاس بھی ہے اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایمان کا نور سورج جیسا تھا ہمارا ایک چراغ جیسا ہے لیکن ایک چیز جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حدیبیہ میں دشمن نبی ﷺکو دکھائی وہ ہمارےپاس آج کے دشمنوں کو دکھانے کے لیے نہیں ہے وہ ہے ہمارے آقا ﷺ کا لعاب دہن اور بدن نبوی سے مس ہونے والا پانی، جس کے ساتھ والہانہ پیار کے اظہار سے ہم آج کے چارلیوں کا خمار اتار سکتے تھے تو کیا فیضانِ ختم نبوت کی حامل امت کے پاس آج کے دشمنان رسول ﷺکیلئے نماز، روزے کے علاوہ سرکار دوعالم ﷺ کی ذات کے ساتھ والہانہ لگاؤ ،عقیدت و الفت اور محبت و تعظیم کے اظہار کیلئے کوئی چیز نہیں ۔میں کہتا ہوں اگر درمیان میں خوارج کے خودساختہ نظریات حائل نہ ہوں تو آج بھی نام محمد ﷺ کے ذکر آنے پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں کو لگانے سے گستاخان رسول ﷺکے سامنے صحابہ کے لعاب دہن ماتھے پر لگانے کے جذبات کی عکاسی کی جا سکتی ہے ۔
گنبد خضریٰ اس کی تعظیم و توقیر اور حسی اظہارِمحبت سے گستاخوں تک مؤثر پیغام پہنچایا جا سکتا ہے- مدینہ منورہ میں روضہ انور میں ہمارےآقاﷺ عالم برزخ کے اندر کس شان حیات سے تجلّی افروز ہیں اس کا کچھ اندازہ خود فرمان رسول ﷺ حدیث صحیح سے لگایا جا سکتاہے۔
جب معراج کی رات سرخ ٹیلے کے قریب سے گذرتے ہوئے میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کودیکھا وہ قبر میں کھڑے ہو کر نماز ادا کر رہے تھے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے کے لیے انسانی بدن کے لیے کیاکیا شرائط ہیں صرف روح یا صرف بدن کا روح کے بغیر یہ کام نہیں کہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے ضروری ہے کہ جسم اور روح دونوں ہوں جیسے عالم دنیا میں ہوتا ہے پھر ایسے بھی نہیں کہ معاملہ یوں ہو جیسے دنیا میں صحیح سلامت بندہ ہو مگرسویا ہواہو کیونکہ سوئے کی یہ شان نہیں کھڑاہو کر صحیح نماز ادا کر سکے ۔تو پتہ چلا کہ فرمان نبوی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر پر نور میں حیات حسی حقیقی جسمانی دنیاوی کے ساتھ زندہ ہیں جب قبر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ مقام ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آقا اپنی قبر پر نور میں کس آب و تاب کیساتھ جلوہ گر ہیں
آج امت گنبد خضریٰ کے سامنے ہاتھ باندھے آداب بجا لا رہی ہوتی تو مکین گنبد خضریٰ کے خاکے نہ بنتے، اگر امت آثار رسول ﷺ کی طرف کسی کو میلی نگاہ سے نہ دیکھنے دیتی تو ذات رسول ﷺ کی طرف کوئی میلی نگاہ سے کیوں دیکھتا ۔اگر حقائق کے ماننے کا حق ادا کیا جائے تو یہودیّت و نصرانیت کے شر ،قادیانیت کے مکراور لادینیت کے خطر کا جواب صرف اس بات سے دے سکتے ہیں کہ دین اسلام کا مرکز و محور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات گرامی ہے اور آپ اس وقت مدینہ منورہ میں اپنے روضہ انورمیں زندہ تابندہ ہیں، ہر شخص گنبد خضریٰ کی طرف متوجہ رہے جو جانے کے لیے تڑپ رہا ہے وہ کہے کہ ایک دن میں بھی اللہ کے رسول ﷺ کے پاس جاؤنگا ۔جووہاں پہنچ گیا وہ کہےمیں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا ہوں اور جووہاں سے حاضری دے کر آئے کہے میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس سے ہو کر آ رہا ہوں شاید کوئی کہے تمام مسلمان یہی توکہتے ہیں تو میں کہتا ہو ں اس میں کوئی شک نہیں امت مسلمہ کے سواد اعظم کا یہی نظریہ ہے مگر خوارج نے اپنے طرف سے غیر مسلموں کے سامنے امت کا یہ عقیدہ ظاہر کر رکھا ہے کہ حضرت مصطفےٰ ﷺ معاذ اللہ مٹی میں مل گئے ہیں اور ان کے ارادے سے گھر سے سفر پر نکلنا سفر گناہ ہے-
(معاذاللہ)
یہود و نصاری یہ سمجھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی اپنے رسول اللہﷺ سے حسّی وابستگی ختم ہو چکی ہے چنانچہ ان میں پہلے والی حرارت نہیں رہی دیکھئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا رسول اکرم ﷺ سے بعد از وصال اندازِ محبت کیساتھا اور روضہ رسول ﷺ پر حاضری دینے کا طریقہ کیا تھا۔
مروان نے ایک شخص کو پیچھے سے دیکھا جو رسول اللہﷺ کی قبر انور پر اپنا چہرہ رکھے حاضری دے رہا تھامروان نے کہا تم جانتے ہو کیا کہہ رہے ہو؟ مروان آگے بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔آپ نے فرمایا ہاں! میں جانتا ہوں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کے پاس آیا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آ یاہوں ۔
منیب بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے صحابی رسولﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھاآپ رسول ﷺ کی قبر کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور ہاتھ یوں بلند کیے کہ میں نے گمان کیا کہ آپ نے نماز شروع کر دی ہے۔آپ نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اور واپس چلے گئے ۔
👈
امام محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی قبر کے پاس حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ رو رہے تھے اور فرما رہےتھے یہاں آنسو بہہ ہی جاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔
وصال نبویﷺ کے بعد حضر ت بلال رضی اللہ عنہ ملک شام چلے گئے تورسول اللہ ﷺ نے خواب میں انہیں فرمایا اے بلال یہ کیا جفا ہے تم مجھے ملنے کب آؤ گے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے بڑے غمگین تھے اسی حالت میں خودسواری پہ بیٹھے اور ملک شام سے صرف رسول اللہ ﷺ کی قبر کی حاضری کی نیت سے چلے اور در رِسول ﷺ پر حاضر ہوئے ۔
یوروشلم میں جب حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تو آپ نے حضرت کعب بن احبار سے کہا کیا تم میرے ساتھ چلو گے کہ تم مدینہ منورہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی قبر کی زیارت کرو۔مدنیہ منورہ میں جب حجرہ نبویہ میں سرکار دوعالم ﷺ خود جلوہ گر ہیں تو گنبد خضریٰ کی طرف سفر کے آداب سے غیر مسلموں پر واضح کر سکتے ہیں کہ جب مکان کا یہ ادب ہے تو مکین گنبد خضریٰ کا ادب کتنا ہو گا
عبد ی مالکی لکھتے ہیں، کہ قبر نبی ﷺ کی زیارت کے لیے سفر کرنا کعبۃ اللہ اور بیت المقدس سے سفر سے زیادہ فضیلت والا ہے ۔
👈🌹قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ قبر نبی ﷺ کی زیارت کے لیے جانا اجماعی سنت ہے ۔
امام ابن ضیامکی حنفی لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی قبر کی جگہ روئے زمین پر سب سے افضل مقام ہے ۔
امام تقی الدین سبکی کہتے ہیں وہ پہاڑیاں ،وہ غاریں،وہ راستے جہاں کبھی رسول اکرم ﷺ کے تلوے لگے تھے انکی تعظیم و توقیر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کا حصہ ہے ۔
امام بخاری نے سند صحیح سے لکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیا ن راستوں پر وہاں نمازپڑھتے تھے جہاں انہوں نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ ہمارے آقا ﷺ کے قدموں کی برکت یہ ہے کہ حضرت عتبان بن مالک نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے گھر صرف اس مقصد کے لیے دعوت دی کہ ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تو آپ کے قدموں کے نشان پر مسجد بنا لوں اور ایسا ہوا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ مسجد حرام میں وہاں نماز پڑھتے تھے جہاں کبھی سرکار ﷺ پڑھتے تھے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تو کعبۃ اللہ کے اندر بھی اس جگہ نماز پڑھتے جہاں فتح مکہ کے دن ہمارے آقا ﷺ نے نماز پڑھی تھی ۔
یہ وہ جذباتِ محبت اور امورِ شریعت ہیں جن کی وجہ سے امت کی دشمنان ِرسول پر دھاک بیٹھتی ہے ۔جہاں سرکار دو عالم ﷺ ایک مرتبہ قدم رکھیں تو اتنی برکت ہو جا تی ہے تو جہاں سرکار ﷺ کا پیکر پر نور جلوہ گر ہے۔ اس مقام کی عظمت کیا ہو گی اس لیے جب امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حجرہ نبویہ میں قبر بنوانے کی اجازت مل گئی تو انہوں نے کہامیرے نزدیک اس لیٹنے کی جگہ یعنی یہاں قبر بننے سے اہم کوئی شئی نہیں ہے۔
آج تمام مسائل کا حل ذات رسول ﷺ سے حسی وابستگی میں ہے ۔امام ابن الحاج نے کہا مدینہ منورہ روضہ رسول ﷺ پر حاضری کے وقت انسان یہ سمجھے کہ وہ سرکار دو عالم ﷺ کی بار گاہ میں یوں کھڑا ہے جیسے گویا کہ آپ ﷺ کی ظاہر ی حیات میں حاضری دے رہا ہو کیو نکہ آ پ کی موت اور حیات میں کوئی فرق نہیں ہے۔یقینا ًدر رسول ﷺ گنبد خضریٰ کی عظمت کے چرچوں سے گستاخوں مرغوب کیا جا سکتاہے۔
امام ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں امت مسلمہ میں کچھ ایسے عاشق بھی ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی قبر پر نور کے دیدار کی تمنا یوں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ہمارا سب کچھ جان ومال اور اولاد بھی لے لے لیکن ایک بار ہمیں روضہ رسول ﷺ کا دیدار کرادے ۔
امام سید البکری الدمیاطی لکھتے ہیں ’’اگر کوئی شخص روضہ رسول ﷺ کی زیارت کے لیے زمین کے آخری کونے سے اپنے سر کے بل یا پلکوں کے بل چل کر مدینہ منورہ پہنچے پھر بھی اس پر جو اس کے نبی ﷺکا حق ہے وہ حق ادا نہیں کر سکا‘‘کیوں نہ ہو یہی وہ مقام ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی حاضری کے لیے آئیں گے اور ایک دن بیت اللہ بھی خود حاضری کے لیے پہنچے گا ۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب قیامت کا دن ہو گا تو کعبۃ اللہ میری قبر پر آ کر حاضر ہو گا اور کہے گا سلام ہو تجھ پر اے محمد ﷺ میں کہوں گا بیت اللہ تجھے بھی سلام ہو بتاؤ میرے وصال کے بعد میری امت نے آپ سے کیسا سلوک کیا تو کعبہ کہے گا اے محمد ﷺ جو میرے پاس آیا اس کے لیے میں کافی ہوں اور اس کا سفارشی ہوں گا اور جو میرے پاس نہیں آیا تو اس کیلئے اے رسول اللہ ﷺآپ کافی ہیں اور آپﷺ اس کے شفیع ہوں گے۔
سچ کہا حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے غافل ذرا تو
جاگو پاؤں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
واروں قدم قدم پہ کہ ہر دم ہے
جان نویہ راہ جانفزا مولیٰ کے در کی ہے
محبوب رب عرش ہے اس سبز قبہ
پہلو میں جلوہ گاہ عتیق و عمر کی ہے
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ’’جو شخص یہ کہے کہ مدینہ منورہ کی مٹی اچھی نہیں اسے تیس کوڑے مارے جائیں اور اسے قید میں ڈالا جائے اور فرمایا اس کا سر اتارنا کتنا ضروری ہے کہ جس مٹی میں اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ دفن ہیں یہ گمان کرتاہے کہ وہ مٹی اچھی نہیں ‘‘
اگر امت آج ان آئمہ کے دئیے ہوئے اصولوں کے مطابق گنبد خضریٰ کا ادب کرے تو مکین گنبد خضریٰ کے خاکے نہیں بنیں گ
]]>
No comments:
Post a Comment